سوشل میڈیا پر بحث:- "راجہ داہر" یا "محمد بن قاسم" حقیقی ہیرو کون؟


پاکستان میں ٹوئٹر پر روزانہ انوکھے قسم کے ٹرینڈز دیکھنے کو ملتے ہیں جن کو پڑھ کے کئی ذہنوں میں سوالات اٹھتے ہیں کہ یہ کیوں ہیں، کس لیے ہیں، اور کس نے شروع  کیے ہیں.۔

لیکن یہ تو شاید کسی کے خواب میں بھی نہیں ہو گا کہ 92 ہجری (711 عیسوی) میں رمضان کی دس تاریخ کو عرب جرنیل محمد بن قاسم کے ہاتھوں دیبل کے مقام پر شکست کھانے والے سندھ کے حکمراں راجہ داہر اپنی موت کے 1300 سال گزرنے کے بعد ٹوئٹر پر ٹرینڈ کریں گے.۔

جب گھڑی نے بارہ بجائے اور چار مئی کی تاریخ کا آغاز ہوا تو پاکستانی ٹوئٹر پر ایک ہیش ٹیگ ٹرینڈ شروع ہوا جو کہ اگلے کئی گھنٹوں سرفہرست رہنے والے ٹرینڈز میں شامل رہا

سرمد لغاری نامی صارف کی جانب سے کی گئی ٹویٹ میں یہ ہیش ٹیگ سب سے پہلے استعمال ہوا جس میں لکھا تھا کہ 'دوستوں، کل کے لیے تیار ہو جاؤ اور انھیں بتا دو کہ راجہ داہر ہمارا قومی ہیرو ہے نہ کہ محمد بن قاسم.۔‘

سابق آمر جنرل ضیا الحق نے سنہ 1977 میں نصاب تعلیم میں تبدیلیاں کیں اور اس کے بعد سے نصابی کتب میں محمد بن قاسم کو بطور ایک مثالی حکمران پیش کیا جاتا ہے ’جن کی رعایا جو کہ ہندو حکمران راجہ داہر کے ظلم و ستم سے نالاں تھی، ان سے بے حد خوش ہوئی اور ان کی خوش اخلاقی سے متاثر ہو کر دائرہ اسلام میں داخل ہو گئی۔‘

ٹوئٹر پر جاری اس بحث اور راجہ داہر اور محمد بن قاسم کے حوالے سے منسوب واقعات و بیانات کی حقیقت جاننے کے لیے بی بی سی نے امریکہ کی کولمبیا یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر منان احمد آصف سے رابطہ کیا۔

پروفیسر منان نے بی بی سی کو بتایا کہ کہ جماعت اسلامی نے 70 کی دہائی سے یوم باب الاسلام منانے کا آغاز کیا اور بعد ازاں جنرل ضیا نے نصابی کتب میں محمد بن قاسم کے کردار اور ان کی اہمیت کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔

اسی حوالے سے پانچ سال قبل اپنے ایک مضمون میں پروفیسر منان لکھتے ہیں کہ جماعت اسلامی نے عرب مسلمانوں کی اہمیت اور کردار پر تعریفی لٹریچر تیار کروایا اور اس میں جزیرہ نما عرب اور پاکستان کے مابین براہ راست تعلق کو ثابت کرنے کی کوشش کی۔

راجہ داہر یا محمد بن قاسم - ہیرو کون؟

لیکن جہاں محمد بن قاسم کو پہلے پاکستانی کے طور پر پیش کیا گیا، کئی پاکستانیوں نے تاریخ میں اس ’تبدیلی‘ کو منظور نہیں کیا۔

معروف سندھی سکالر اور سیاستدان جی ایم سید نے قریباً پچاس برس قبل اپنی ایک کتاب میں راجہ داہر کو بطور ہیرو پیش کیا جسے ایک ’حملہ آور عرب‘ نے شکست دی۔

پروفیسر منان بھی اسی بات کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ 60 کی دہائی میں سندھی قوم پرستوں نے راجہ داہر کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کیا۔

امور سندھ پر تحقیق کرنے والے ماہر بشریات رفیق وسان نے گذشتہ سال شائع ہونے والے ایک انٹرویو میں جی ایم سید کی جانب سے راجہ داہر کو بطور ہیرو پیش کرنے پر تجزیہ کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کا سیاسی مقصد تھا اور وہ پاکستانی ریاست کو ’اسلامائز‘ کرنے کی مخالفت کرنا تھا۔‘

رفیق وسان نے اسی انٹرویو میں مزید کہا ’جی ایم سید پاکستانی سٹیبلیشمنٹ کی جانب سے برصغیر میں اسلام کی آمد کے بیانیے کی مخالفت کر رہے تھے اور ان کے نزدیک عربوں کا سندھ آنا اسلام کا پھیلاؤ نہیں بلکہ وہ عرب ایک سامراجی قوت کے طور پر یہاں آئے تھے۔'

رنجیت سنگھ کا مجسمہ تو راجہ داہر کا کیوں نہیں؟

راجہ داہر کے حق میں کی جانے والی ٹویٹس میں چند صارفین نے یہ مطالبہ کیا کہ بھنبور کے قلعے پر راجہ داہر کا مجسمہ قائم کیا جائے۔

صارف دھنجی کوہلی نے سوال اٹھایا ’اگر پنجاب میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ قائم ہو سکتا ہے تو ہمیں راجہ داہر کو خراج تحسین پیش کرنے سے کیوں روکا جاتا ہے۔ وہ سندھی ہیرو ہیں۔‘

گذشتہ سال جون میں لاہور کے شاہی قلعے میں مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ نصب کیا گیا تھا تو اس وقت بھی ٹوئٹر پر چند صارفین نے اسی مطالبے کو دہرایا تھا۔

اس مطالبے پر رفیق وسان کہتے ہیں کہ راجہ داہر کو بطور ہیرو تسلیم کرنا اور ان کا مجسمہ قائم کرنا ممکن نظر نہیں آتا کیونکہ ایسا کرنا پاکستان کی اساس کے خلاف جاتا ہے۔

پروفیسر منان بھی اسی بات کی تائید کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سنہ 1953 میں پاکستان کے قیام کی پانچ سالہ تقریبات پر شائع ہونے والی دستاویز ’فائیو ائیرز آف پاکستان August 1947-1952 August‘ میں لکھا گیا کہ 712 عیسوی میں محمد بن قاسم نے دیبل کے قلعے کا فتح کیا جس کے بعد باقی پورا سندھ اسلام کے دائرے میں شامل ہو گیا۔

پروفیسر منان کے مطابق قیامِ پاکستان کے حصول کے لیے ’ایک اصل حقیقی تاریخ‘ تیار کرنے کا مقصد ریاست کی جانب سے ایک باقاعدہ شعوری کوشش تھی۔

Comments

Popular posts from this blog

What is "Teacher on" ?

وکالت کا لائسنس حاصل کرنے کا طریقہ How to get Licence for an Advocate

Phases of Chorometography.