How Stupid Question ?


                                         آپ کے عمدہ ذوق کی نظر ۔۔ آئے اہلِ نظر                     





                                                      * المیہ میٹرک امتحان میں پوچھےگئے 
                                                                                    ایک سوال کا
                                                                                                                             تحریر مولوی انوارحیدرتونسوی 
                                                                                                                        اللّٰہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ 
 علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے تحت منعقدہ امتحان میں میٹرک کے طلبہ سے بڑی بہن پہ مضمون لکھنے کے سوال نے ملک بھر میں حیرانگی پریشانی اور شرمندگی کی لہر دوڑادی ہے، ہر زبان پہ یہی سوال ہے کہ اِس سوال کا تعلیم سے کیا تعلق ہے؟ ایک محترم رشتہ کی اِس طرح سے تشریح طلب کرنا آخِر کس ضرورت یا مجبوری کے تحت ہے ؟ فزیک ٹیسٹ لینے کیلئے مرد رشتے کافی نہیں ؟ بہن کے بجائے والد دادا نانا سے متعلق بھی تو پوچھا جاسکتا ہے، بہن کے متعلق پیپر میں سوال کرنا اٙقدار اور اٙخلاقیات پہ حملہ کے سوا کچھ بھی نہیں، اندر کی کہانی یہ ہے کہ بیرونی قرضوں پہ چلنے والا نظامِ تعلیم ایسے سوال کرنے کا، مخلوط کلاسز منعقد کرنے اور آزادخیال نصاب نافذ کرنے کا پابند ہے، صرف محکمہ تعلیم نہیں تقریبا ہر ادارہ پورا ملک ہی گروی رکھا جاچکس ہے اور قرضہ دینے والوں کی مسلط کردہ شرائط بنا سوچے سمجھے قبول اور پوری کی جارہی ہیں چنانچہ ترجیحی طور پہ وطنِ عزیز پاکستان جیسی نظریاتی اسلامی ریاست میں تنقیصِ دین تردیدِ دین اور آزادخٙیالی کی تبلیغ زور شور سے جاری ھے اور قانون اِس پر کوئی گرفت نہیں کرتا، نظریہ ءِ پاکستان اور دین سےمحبت کرنے والے بےبسی کے عالم میں حقوق طلبی کیلئے ریاست (حکومت) کی طرف دیکھتے ہیں کہ ایک رِٹ پٹیشن بےدینی کی اِس وبا پہ دائر کردیں، روشن خیالی کے نام پہ پھیلائی جانے والی آزادخیالی اور لبرزم کو قانون کی دائرے میں لائیے، تنقیصِ اسلام پہ کوئی قدغن لگایئے، کوئی ضابطہ ءِ اٙخلاق ہی مقرر کردیجیئے کہ دین بیزار حلقے اکثریتی آبادی مسلمانوں کی دل آزاری نہ کرسکیں، مگر افسوس کہ حکمران اپنی اِس ذمہ داری سے قطعی لاتعلق ہوچکے ہیں، اقتدار کی ہوس اور بیرونی آقاوں کی خوشنودی کی خاطر ایک مسلم ریاست کے حکمران ریاست کے بنیادی نظریہ اور جمہور کے حقوق کا تحفظ کرنے کے بجائے صرف اقلیتوں کا تحفظ کررہے ہیں، مان لیا کہ اقلیتوں کا تحفظ لازمی ھے امرِ شرعی ھے مگر اِس کے ساتھہ ساتھہ اکثریت کا بھی تو احترام کیا جانا چاہیئے، اکثریت کا یہ مطالبہ عین فطری اور مطابق قوانین جمہوریت ھے کہ ریاست اپنے مذہب کی حفاظت کا خود بندوبست کرے، چنانچہ چاہیئے تو یہ تھا کہ اسلامی ریاست اپنی رعایا کے جمہور طبقے کی اِس اپیل پہ عمل کرتی لیکن حقیقت حال اِس کے برعکس ھے اکثریت پابندیوں کی زد میں ھے بلکہ دوقدم آگے نوبت اِن حالات پہ پہنچ گئی ھے کہ مذہب اور نظریہ کی بات کرنے پہ قسم ہا قسم کے طعنے سننے کو ملتے ہیں اور اِس کو جرم  سمجھا جاتا ھے یعنی کہ
√ حق مانگنا بھی ھےگستاخی کا عمل
دراصل پسِ پردہ گیم کچھہ اور چل رہی ھے کہ دہشت گردی کے خاتمے کی آڑ میں فکری اور نظریاتی تبدیلی کی بھرپور محنت جاری ھے اور شومی ءِ قسمت حکومتی مشینری اپنے تمام وسائل کے ساتھہ اِس میں مکمل طور پہ شریک کار و معاون ہے اور اسلامی مملکت کا اِس جنگ میں اپنی نظریاتی اساس، دستور و آئین کے خلاف عمل پیرا ہونا ایک خاموش انقلاب کی طرف اشارہ کر رہا ھے اور لطیفہ یہ ہے کہ ملک کی جمہور آبادی اس تبدیلی سے متفق نہیں ھے، سادہ سے لفظوں میں کہا جاسکتا ھے کہ حکومت اپنی عوام کے مقابل نظریاتی محاذ قائم کرچکی ہے جبکہ عوام کو دہشتگردی اور معاشی بدحالی میں الجھا دیا ھے تو جب حکومت اسلام اور لبرلزم کی اس سردجنگ میں جمہور کے مقابل ایک فریق کی واضح پوزیشن سنبھال چکی ہے تو زورپکڑتی آزادخیالی کے خلاف ہم عوام اُس سے قانون سازی کی امید کس طرح کر سکتے ہیں، ہاں اپنے حقوق کا مطالبہ دہراتے رہنا ہوگا کہ پروپیگنڈہ بھی ایک جنگ ھے، کوشش بھی ایک عمل ہے اِسی جاری رکھنا ہوگا، اور ساتھہ ساتھہ اپنے دینی افکار مذہبی شِعار اور عقائد و نظریات کا علمی تحفظ بھی کرنا پڑیگا، اپنے بچوں کی اٙخلاقی تربیت کیلئے اُنہیں دین کا درس دیں، دینیات سے مانوس کریں تلاوتِ قرآن مطالعہ ءِ دین اور اور اہتمامِ نماز کا عادی بنائیں، عمومی طور پہ اِحیاءِ دین اور اشاعتِ دین کی کوشش کریں اِس کیلئے ابتدا ہمیں اپنی اپنی ذات سے کرنا ہوگی اور دوسروں کو بھی ساتھ جوڑنا ہوگا مثلاً سورة العصر ایک جامع اور مظبوط راہِ عمل فراہم کرتی ہے، ہمیں اپنی اصلاح کی فکر کے ساتھہ دعوتِ صبر کا پیغام بھی عام کرنا ہوگا، اپنے اچھے عمل سے اپنی اولاد کو صراط مستقیم پہ چلنے کا عادی بنانا ہوگا، ہم کوئی بات نافذ نہیں کرسکتے مگر رواج تو دے سکتے ہیں، عمل تو کرسکتے ہیں، پس ہمیں عمل کرنا ہوگا کہ عمل محفوظ کرلیا جاتا ھے عمل ضائع نہیں ہوتا، خیر کی دعوت عام کیجیئے الفاظ گردش میں رہتے ہیں آواز اپنا سفر جاری رکھتی ہے، امید باندھنے اور خواب دیکھنے میں کوئی حرج نہیں امید پہ زندگی گذاری جاسکتی ھے، خواب کوئی دیکھتا ھے جبکہ تعبیر کسی اور کے دامن میں گرتی ھے، اپنی آنے والی نسلوں کو امید دیجیئے اپنے خواب اُن کے سپرد کردیجیئے امیدوں کی تعمیر اور خواب کی تعمیر وہ خود حاصل کر ہی لینگے
توں شاکر "دعا منگی رکھہ
دعا جانڑے خدا جانڑے 
( انوار حیدر )

Comments

Popular posts from this blog

What is "Teacher on" ?

وکالت کا لائسنس حاصل کرنے کا طریقہ How to get Licence for an Advocate

Phases of Chorometography.