Allama Shibli Naumani
ءِے مٙیڈے نانے دا گھر ءِے
*یعنی کہ یہ میرا ننھیال ھے*
سیرت النبیؐ الفاروقؓ النعمان المامون اور علم الکلام جیسی تاریخی کتب کے مصنف نامور قومی شخصیت حضرت علامہ شبلی نعمانی مرحوم نے سفرِ استنبول کا اپنا ایک واقعہ لکھا ھے کہ بمبئی سے بحری جہاز پہ سوار ہوئے کیبن میں سب مسافر ہندی تھے یکساں ماحول تھا کہ آخر وقت ایک گورا آن وارد ہوا آتے ہی سب کو ایک نظر گھورا ہم سب کا سامان ایک طرف اکٹھا کرکے باقی بچی وسیع جگہ پہ اپنا سامان دھرا اور بنا کسی سے بات کیئے اپنی برتھہ پہ دراز ہوگیا برتھہ سے اترتے اور چڑھتے وقت کسی نہ کسی کو ٹہوکا مارنے سے باالکل نہ چُوکتا دورانِ سفر شراب پیتا رہا سگریٹ نوشی کرتا گیا اُسکی اِس بدبودار معیت نے سفر کا مزہ خراب کردیا چلتے چلتے ترکی پہنچ گئے استنبول کی بندرگاہ پہ اترے گورے نے دوتین مزدور بلوائے اور سامان سمیت روانہ ہوگیا مٙیں بھی اپنا بریف کیس اٹھائے کیبن سے باہر نکلا ترک حکومت کی عملداری میں پہنچ کے تحفظ کا خوشگوار احساس ہوا اور میں خراماں خراماں چلتا پورٹ سے باہر آگیا ناگہاں اُس گورے پہ نظر پڑی وہ موٹر والے سے بات کر رہا تھا لمحے بھر کے اندر میرے ذہن میں ایک بات آئی آنکھیں چمک اٹھیں اور میں تیزی سے اُس کی طرف چل پڑا پاس پہنچ کے ساری قوتِ جسمانی دماغی اعصابی روحانی اور ایمانی یکجا کرکے انتقاماً پورے زور سے اُس کو کندھا مارا اور وہ انگریز اچھل کے دور جا گرا اِس سے پہلے کہ وہ سنبھلتا اور اٹھتا میں فاخرانہ فاتحانہ قدموں سے روانہ ہوگیا دل میں ایک احساس تھا کہ یہاں اِس گورے کی حکومت نہیں یہاں میرے بھائی بندوں کی حکومت ھے یہاں مجھے تحفظ میسٙر ھے کچھہ آگے پہنچا تو مُڑ کے دیکھا وہ گورا منہ بنائے بےبس کھڑا اپنا لباس جھاڑ رہا تھا مٙیں نے اپنے سینے پہ ہاتھہ مارا اور مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا
************ کسی کافر معاشرے میں مسلم اقلیت ہونے کا احساس گھٹن اور قید جیسا ہوتا ھے بندہ بےبس ہو تو خاموش بیٹھنا پڑتا ھے اور آزاد ہو تو شغل سمجھ کے کافر کو کندھا بھی ماردیتا ھے
Comments